احمد فراز زلف راتوں سی ہے رنگت اجالوں جیسی پر طبیعت وہی ہے بھولنے والوں جیسی اک زمانے کی رفاقت بھی رم خوردہ ہے اس کم آمیز کی خو بو ہے غزا لوں جیسی ڈھونڈتا پھرتا ہوں لوگوں میں شباہت اسکی کہ وو خوابوں میں بھی لگتی ہے خیالوں جیسی کس دل آزار مسافت سے میں نکلا ہوں کہ ہے آنسوؤں میں بھی ٹپک پاؤں کہ چھالوں جیسی اسکی باتیں بھی دل آویز ہیں صورت کی طرح میری سوچیں بھی پریشان ہیں میرے بالوں جیسی اسکی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی |
No comments:
Post a Comment